ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے گورنر ارجت پٹیل نے مالی معاملات پر
پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی کو اس بات کی معلومات نہیں دی کہ نوٹ بندی سے
متاثر بینکنگ نظام کب تک معمول پر آ جائے گا، لیکن ذرائع کے مطابق انہوں
نے اس بات پر زور دیا کہ جتنی بھی رقم کی ضرورت ہو گی مرکزی بینک اس کو
فراہم کرنے کے قابل ہے۔ آر بی آئی کے سربراہ نے کمیٹی کو بتایا کہ نئی
کرنسی میں 9.2 لاکھ کروڑ روپے بینکنگ سسٹم میں ڈالے جا چکے ہیں ۔ ارجت پٹیل
نے پارلیمانی کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ نوٹ بندی کا عمل گزشتہ سال جنوری
سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ خیال رہے کہ آر بی آئی گورنر کا یہ بیان کمیٹی کو پہلے دیے گئے اس تحریری
بیان کے بالکل برعکس ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کی طرف سے
8 نومبر کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ہٹانے کے اعلان سے صرف ایک دن
پہلے 7 نومبر کو حکومت نے آر بی آئی کو بڑے نوٹوں کو منسوخ کرنے کا
'مشورہ دیا تھا۔ تاہم پٹیل نے کمیٹی کو یہ نہیں بتایا کہ منسوخ نوٹوں میں
سے کتنے بینکوں میں واپس آ چکے ہیں۔
ارجت پٹیل نے کانگریس کے لیڈر ویرپا موئلی کی قیادت والی مالی معاملات پر
پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی کو بتایا کہ جنوری 2014
میں 1000 روپے کے نوٹوں کی
ایک سیریز کو جزوی طور پر واپس لے لیا گیا تھا ۔ ذرائع نے بتایا کہ وزارت
خزانہ کے افسران بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، لیکن انہوں نے ارکان
پارلیمنٹ کا اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ نوٹ بندی کے بعد منسوخ نوٹوں میں
سے کتنی رقم بینکوں میں جمع ہوچکی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ جمعہ کو ارجت پٹیل کے وی تھامس کی قیادت والی پبلک
اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے سامنے بھی پیش ہو سکتے ہیں۔ تھامس نے کچھ دن
پہلے بیان دیا تھا کہ اگر ضرورت ہوئی تو نوٹ بندی کے معاملہ پر صفائی دینے
کے لے وزیر اعظم مودی کو بھی سمن جاری کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس بیان کے
خلاف بی جے پی نے لوک سبھا اسپیکر سے شکایت کی تھی اور تھامس کے خلاف
کارروائی کا مطالبہ کیاتھا۔ خیال رہے کہ اس بات کے لئے آر بی آئی تنقیدکی زد پر ہے ، نوٹ بندی کو لے
کر اس نے پہلے سے وافر تیاریاں نہیں کی تھیں اور اس نے اپنی خود مختاری سے
بھی سمجھوتہ کیاہے۔ تاہم ریزرو بینک نے اب تک یہ معلومات نہیں دی ہے کہ 15.44 لاکھ کروڑ روپے
کے منسوخ نوٹوں میں سے کتنی رقم بینکوں میں واپس آچکی ہے ۔ تاہم کچھ
اطلاعات کے مطابق پرانے نوٹوں کا تقریبا 97 فیصد حصہ بینکوں میں واپس آچکا
ہے۔